Sunday, 12 July 2015

اے میرے رب

رب سے باتیں 

اے میرے رب میری فریاد سُن کیونکہ تو سب سے بہتر جاننے والا، سُننے والا اور دیکھنے والا ہے، اے مالکِ ارض و سما میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر تجھ سے عاجزی سے عرض کرتا ہوں کی میں نے اُن کانوں سے جو تو نے مجھے عطاء کئے ہیں سُنا اور اُن آنکھوں سے جو تو نے عطاء کی ہیں دیکھا اور اُس علم سے جو تو نے مجھے عطاء کیا ہے جانا کہ لوگوں کو اِس فانی دُنیا کی کشش نے اپنی طرف کھینچا اور وہ شیطان کی دوستی میں اندھے ہوگئے اور اُن کو کثرت کی خواہش نے غفلت میں ڈال دیا اور اِس غلفت کو اُنہوں نے ترقی کا نام دے ڈالا اور اے میرے پاک پروردگار میں اپنے کانوں سے سُنتا ہوں، اپنی کھلی ہوئی آنکھوں سے دیکھتا ہوں ، اور اُس علم سے جو تو نے مجھے عطاء کیا ہے جانتا ہوں کہ لوگ ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں اور قہقے لگاتے ہیں وہ معصوم لوگوں کے گلے کاٹتے ہیں اور افسوس خود کو مسلمان کہتے ہیں، بم سے خود کو پھاڑتے ہیں خود بھی مرتے ہیں اور لوگوں کو بھی مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم سے بہتر انسان کوئی نہیں   
وہ اپنے مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم حق پرست ہیں، فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم سے بڑا مسلمان کوئی نہیں، سیاسی مخالفین  ،سیاسی اور مذہبی کارکنوں پولیس کے ہاتھوں کھلے عام قتل کرواتے ہیں اور مونچھوں پر تائو دیتے ہوئے دندناتے پھرتے ہیں اور ٹی وی ٹاک شوز اور میڈیا میں دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے ہیں،  قانون اُن کے سامنے بے بس نظر آتا ہے، میرے مالک یہ وہی لوگ ہیں جن کو کثرت کی خواہش نے غفلت میں رکھا ہے اور شاید اِن کے لئے دُنیا ہی سب کچھ ہے شاید یہ تیری یہ آیت بھول گئے ہیں کہ تم کو کثرت کی خواہش نے غفلت میں رکھا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں اے میرے رب، اے میرے رب یہ آنکھیں رکھتے ہیں لیکن دیکھتے نہیں ہیں اور ظلم کرتے ہیں، زبان رکھتے ہیں لیکن ظُلم پرچُپ رہتے ہیں کیونکہ قدموں کے نشان اِن کی طرف جاتے ہیں، کان رکھتے ہیں لیکن سُنتے نہیں ہیں کیونکہ اِن کے کان سچ سُننا پسند نہیں ہے شاید یہ اندھے، گونگے اور بہرے ہیں اے میرے پاک پروردگا مجھے صرف اتنا بتا دے کہ وہ لوگ کو نیک رہنا چاہتے ہیں اور تیرے راستے پر چلنا چاہتے ہیں ایسی دُنیا میں کہاں جائیں وہ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں اور بہت کمزور ہیں اے میرے خدا میری فریاد سُن، میری التجا سُن کہ نیک لوگوں کو طاقت عطاء کر اور انہیں قوت دے کہ وہ اپنی نیکی کو قائم رکھ سکیں۔ اے میرے رب دیکھ یہ دُنیا ظلم و جور سے بھر گئی ہے میں ہاتھ جوڑ کرتجھ التجا کرتا ہوں بس اپنی تلوار کو بھیج تاکہ وہ دنیا کے ظالموں کا سر قلم کرے اور دنیا کو عدل سے بھر دے۔
اے میرے پاک پروردگار میں اپنے کانوں سے سُنتا ہوں، اپنی کھلی ہوئی آنکھوں سے دیکھتا ہوں ، اور اُس علم سے جو تو نے مجھے عطاء کیا ہے جانتا ہوں کہ لوگوں کو کثرت کی خواہش نے اس قدر غفلت میں رکھا کہ انہوں نے اِس دنیا کو حاصل کرنے کے لئے رشوت کا وہ بازار گرم کیا کہ کوئی کام رشوت اور کمیشن کے بغیر نہیں ہوتا اے ربِ ذُوالجال یہ ایک تلخ حقیقت اور کڑوی سچائی ہے کہ اس دنیا کے حمام میں سب ننگے نظر آتے ہیں افسوس بڑا آدمی بڑا ہاتھ مار رہا ہے اور چھوٹا ادمی چھوٹا ہاتھ مار رہا ہے کیونکہ ہر کوئی ترقی کرنا چاہتا ہے اِس لئے کوئی قاعدہ کوئی قانون نہیں ہے اے میرے مالک، اے میرے رب میں کس دل سے تجھ سے عرض کروں کہ ہر طرف جنگل کا قانون ہے اگر آپ کی جیب میں پیسہ ہے تو آپ کے لئے ہر کام آسان ہے اور ہر غلط کام صحیح ہے اور اگر آپ کی جیب خالی ہے تو پھر آپ کا ہر جائز اور صحیح کام غلط ہے اے میرے رب، اے میرے رب اُن لوگوں کو جو نیک رہنا چاہتے ہیں اور تیرے راستے پر چلنا چاہتے ہیں بتا وہ کیا کریں کیونکہ وہ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں اور دُنیا میں اکثریت کا قانون چلتا ہے میرے مالک مجھے بتا کیا وہ کسی پہاڑ سے چھلانگ لگادیں، یا زہر کھا کر مر جائیں، یا کسی سمندر میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی ختم کرلیں، یا اپنے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلیں لیکن افسوس وہ نیک لوگ کیا کریں کیونکہ تُو نے خودکشی کو حرام قرار دے رکھا ہے راستباز رشوت اور کمیشن نہیں دینا چاہتے لیکن بے بس اور مجبور ہیں اگر رشوت اور کمیشن نہ دیں تو پھر زندگی اُن کے لئے تلخ ہے اور اُن کا جینا محال ہے اِس دنُیا کی اکثریت نے اُن کے لئے کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے اور اے میرے مالک تُو نے خودکشی کو حرام قرار دے کر اُن کا راستہ بند کر دیا ہے اے میرے پاک پروردگار میں ہاتھ جوڑ کر تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ اُن لوگوں کی آواز پر کان لگا، ان لوگوں کی پُکار کو سُن جو نیک رہنا چاہتے ہیں اور سچائی کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں اے ربِ کریم دیکھ یہ دُنیا ظلم و جور سے بھر گئی ہے اب بس کر نیک لوگ انتظار کرتے کرتے اور صبر کرتے کرتے تھک سے گئے ہیں اب بس کر اور اپنی تلوار کو نازل فرما تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو اور یہ دُنیا عدل سے بھر جائے مالک نیک اورسیدھے راستے پر چلنے والون کی التجا اور فریاد سُن اور اب دیر مت کر کیونکہ اس دُنیا میں نیکی آٹے میں نمک کے برار رہ گئی ہے اور لوگ گناہ ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔ 
اے میرے پاک پروردگار میں اپنے کانوں سے سُنتا ہوں، اپنی کھلی ہوئی آنکھوں سے دیکھتا ہوں ، اور اُس علم سے جو تو نے مجھے عطاء کیا ہے جانتا ہوں کہ لوگوں کو کثرت کی خواہش نے اس قدر غفلت میں رکھا کہ انہوں نے اِس دنیا کو حاصل کرنے کے لئےاے  میرے ربِ عظیم ہر کسی نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے اے عرش کے مالک اے کائنات کے مالک میں انتہائی افسوس اور دُکھی دِل کے ساتھ یہ کڑوی اور تلخ سچائی تیرے حضور پیش کر رہا ہوں جسے تُو مجھ سے بہتر اور اچھی طرح جانتا ہے کاش زمیں پھٹ جائے اور راستباز اور تیرے راستے پر چلنے والے لوگ اُس میں سما جائیں کیونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سُنا اور اپنی کانپتی اور لرزتی ہوئی زبان سے بیان کررہا ہوں کہ کوئی ہے جو بتائے کہ مساجد، مدرسوں، امام بارگاہوں کے چندے کہاں جاتے ہیں زکواۃ اور فطرانہ کے نام پر جو بھتہ اکھٹا ہوتا ہے وہ کن پیٹوں میں اُتر جاتا ہے سرکاری ہسپتالوں میں علاج صحیح کیوں نہیں ہوتا اور پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھاری فیس کیا کوئی غریب آدمی ادا کرسکتا ہے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بڑے وکلا کی بھاری فیسیں کیا کوئی غریب آدمی دینے کا تصور کرسکتا ہے۔ مساجد، امام بارگاہوں اور مدرسوں سے جوتے کون چوری کرلیتا ہے، اور کون ہے جو مساجد، امام بارگاہوں اور مدرسوں سے پانی کی موٹریں غائب کردیتا ہے۔ میرے مالک مجھے بتا امتحانات میں نقل کون کرتا ہے جعلی ڈگریاں کہاں سے ملتی ہیں اور جعلی ڈگری والے اسمبلیوں میں کیسے پہنچ جاتے ہیں ، رمضان جیسے مقدس مہینے کو لوگوں نے کاروبار کا ذریعہ کیوں بنا لیا ہے رمضان میں چیزیں کون مہنگی کرتا ہے، ٹی وی میں  پیش کئے جانے والے رمضان کے پروگرام مذہب سے زیادہ کاروبار کیوں بن گئے ہیں افسوس غریب لوگوں کو اِن پروگراموں میں پیش کرکے اُن کی عزت نفس سے کون کھیلتا ہے، بظاہر انعامات کی بارش کی جاتی ہے اور لوگوں سے اِن پروگراموں میں عجیب و غریب حرکتیں کروائی جاتی ہیں اور لوگوں کی عزت نفس سے کھیلا جاتا ہے افسوس لوگ بھی انعامات کے لالچ میں عجیب و غریب حرکتیں کرنے پر تیار نظر آتے ہیں لیکن افسوس اُن لوگوں پر جو مذہب کے نام پر کاروبار کررہے ہیں اور کہتے ہیں ہم اصلاح کرنے والے ہیں اے ربِ جلیل تیرا اسلام تو یہ کہتا ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے کو خبر نہ ہو لیکن دینے والے بھرپور نمائش کرتے ہیں اور لوگوں کی عزت نفس سے کھیلتے ہیں اے میرے رب افسوس صد افسوس یہ سب کچھ ترقی کے نام پر ہو رہا ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے کو لوٹنے کی کوشش میں مصروف ہے کیونکہ اکثریت کو گاڑی چاہیئے، بنگلہ چاہیئے، اچھا سٹیٹس چاہیئے، الماری کپڑوں سے بھری ہونی چاہیئے اے میرے رب کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ پیسہ کیسے آیا اور جب مذہبی سکالر مذہب کو فروخت کرنا شروع کردیں تو پھر کہنے کے لئے کیا رہ جاتا ہے اے میرے مالک بتا وہ لوگ کہاں جائیں جو نیک رہنا چاہتے ہیں اور تیرے راستے پر چلنا چاہتے ہیں وہ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں اب اُن کے حال پر رحم کر اور اپنی تلوار کو نازل کر تاکہ دُنیا سے ظلم و جور کا خاتمہ ہو اور یہ دنُیا عدل سے بھر جائے۔ کاش کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے کہ تم کو کثرت کی خواہش نے غفلت میں رکھا اور یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔



العجل العجل العجل یا صاحب الزماں امام مہدی علیہ السلام
اگر کسی کو میری کسی بات  سے کوئی اختلاف ہے تو وہ اختلاف رکھ سکتا ہے کیونکہ اختلاف رائے ہر ایک کا حق ہے اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ میں دوسروں سے اختلاف رکھ سکوں اگر کسی کو میری کسی بات سے دکھ پہنچا ہو تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں کیونکہ یہ میری اپنے نظریات ہیں  شاید کسی کو سمجھ آسکیں۔  





سید محمد تحسین عابدی




7 comments: