Friday, 24 July 2015

یا اللہ! دھاندلی تو دھاندلی ہوتی ہے

رب سے باتیں

اے میرے رب! میری سُن کیونکہ تو سب کی سنتا ہے خواہ وہ نیک ہو یا گناہ گار، سچا ہو یا جھوٹا سب تجھ سے فریاد کرتے ہیں اور تیرے ہی در کے محتاج ہیں ہاں یہ تیری مرضی ہے جس کو جو چاہے طاقت عطاء کرے، معجزے عطاء کرے اور انبیاء اور ولی بنا دے اور جس پر چاہے کرم کرے اور مشکل کشاء بنا بنادے اور جس پر تو اپنا غضب نازل کرے اور اسے بھی طاقت عطاء کرے اور شیطان بنا دے اب ہر کوئی اپنی طاقت کو اپنی مرضی اور اختیار سے استمال کرتا ہے اور انسان چاہے تو اپنی مرضی اور اختیار سے تجھے اپنا دوست بنا لے اور تیری آزمائشوں سے خندہ پیشانی سے گزرے تو تُو اسے انعام میں جنت عطاء کرے گا اور انسان چاہے تو اپنی مرضی اور اختیار سے شیطان کو اپنا دوست بنا لے تو تُوسزا میں اسے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالے گا اور یقیناً تیرا وعدہ سچا ہے لیکن افسوس انسان تجھے اپنا دوست نہیں بناتا کیونکہ وہ تیری آزمائشوں سے گھبراتا ہے اور اُن کا سامنا نہیں کرنا چاہتا اسی لئے وہ شیطان کو اپنا دوست اور ساتھی بنا لیتا ہے اور اِس فانی دنُیا کو حاصل کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے اور خسارے میں پڑجاتاہے روزِ قیامت انسان افسوس کرے گا کیونکہ اُس نے چند روزہ زندگی کی خاطر ا۔س دُنیا کو حاصل کیا اوراُس کو حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی دھاندلی کی  کاش انسان سوچے اور سمجھے اور تیری آزمائشوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرے۔
اے میرے پاک پروردگار! سب جانتے ہیں کہ جھوٹ تو جھوٹ ہوتا ہے خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی جھوٹ ہی کہلائےگا اوراسی طرح دھاندلی تو دھاندلی ہوتی ہے خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی میرے مالک سب جانتے ہیں اور شور مچاتے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور سب سے بہتر تو جانتا ہے کیونکہ بہت شور مچا طوفان اُٹھا ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہوئی کہیں 35 پینچر کا شور تھا تو کہیں آر اوز کی دھاندلی کا طوفان تو کہیں ٹی وی کیمروں کی وہ تصاویر جس میں ایک ہی شخص کو بار بار ووٹ ڈالتے دکھایا گیا تھا سب نے کہا سب نے شور مچایا، سب چیخے اور سب چلائے دھرنے ہوئے ماڈل ٹائون میں چودہ لوگ مار دیئے گئے اسلام آباد میں پارلیمنٹ اور آئین کو مقدس کہا گیا جبکہ تو سب سے بہتر جانتا  ہے مقدس عمارتیں وہ ہوتی ہیں جہاں سے لوگوں کو انصاف ملے یا مقدس عمارتیں وہ ہیں جنہیں تو نے مقدس قرار دیا ہے جیسے خانہ کعبہ اور بیت المقدس,اور مسجد ضرار ہمیشہ گرائی جاتی ہے اسی طرح اے میرے رب عظیم! تو سب سے بہتر جانتا ہے کہ مقدس کتابیں وہ چار آسمانی کتابیں توریت، زبور، انجیل اور قرآن پاک جنیہں تُو نے نازل کیا ہے وہ نہیں جنہیں انسانوں نے تھوڑے سے نفع کی خاطر تبدیل کردیا یا مقدس وہ صحیفے ہیں جنہیں تُو نے انبیاء اور رسولوں پر نازل فرمایا جس کتاب میں تبدیلی ہوجائے  وہ کبھی مقدس نہیں ہوتی۔ 
اے ربِ کریم! اور ان لوگوں کو میں کیا کہوں کس سے فریاد کروں کس کے حضور اپنی درخواست پیش کروں سوائے تیرے کس سے فریاد کروں کیونکہ تو ہی ایک واحد اورعظیم ہستی ہے جو سب کی سنتا ہے اور سب کچھ جانتا ہے اے میرے مالک میں تو صرف اُن لوگوں پر افسوس ہی کرسکتا ہوں جنہیں غریبوں کے ٹیکس سے بنی ہوئی اس مقدس عمارت پر جسے وہ مقدس کہتے تھے پڑے ہوئے غریبوں کے کپڑے تو نظر آگئے لیکن افسوس انہیں لیکن انہیں گولیوں سے چھلنی جسم اور زمین پر گرتی ہوئی لاشیں نظر نہ آئیں اے میرے  رب! کاش وہ پیٹ سے سوچنے کی بجائے دماغ سے سوچتے لیکن افسوس لوگ تو دُنیا کے بندے اور شیطان کے دوست ہیں انہیں انصاف سے کیا مطلب اے ربِ عظیم  میں تو زمین کا حقیر سا ذرہ ہوں صرف اپنی فریاد تیرے حضور پیش کرسکتاہوں اب تُو چاہے تو سُن اور اگر نہ چاہے تو نہ سُن لیکن میں تو صرف اتنا جانتا ہوں تو سب کی سُنتا ہے اور سب کچھ جانتا ہے
اے میرے خدا! میں کیا کروں کہاں جائوں کس سے فریاد کروں میری روح صحرا میں چیخی اس نے سمندر پر پرواز کی اور فریاد سنائی وہ کھیتوں میں پھری اور اپنا درد بیان کرتی رہی وہ جنگلوں میں گئی اور درد کے ساتھ چیخی اور چلائی اس نے پہاڑوں میں سفر کیا اور اپنی درد بھری کہانی سنائی وہ وقت کے نمرودوں اور فرعونوں کے سامنے گئی اور انہیں تنبیہہ کی کے ظلم مت کرو اس نے ایوانوں کا چکر لگایا اور اپنی درر کو پیش کیا وہ عدالتوں میں پھری کہ انصاف ملے لیکن انصاف نہ ملا شاید نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سُنتا افسوس اکثریت جب بے ایمان، منافق، جھوٹی اور ریاکار ہوجائے تو مجھے اے میرے مالک بتا نیک لوگ کہاں جائیں اور وہ کس سے فریاد کریں اور کس سے انصاف مانگیں کیونکہ سچ کو کہیں دفن کردیا جاتا ہے۔ اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ سچ کا گمان ہونے لگتا ہے سب جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے کرپشن کون کررہا ہے دھاندلی سب کو پتا ہے کہ سب نے کی ہے سب جانتے ہیں کہ جس کا جہاں زور چلا اُس نے دھاندلی کی جس کا جہاں ہاتھ پڑتا ہے کرپشن کرتا ہے چھوٹا آدمی چھوٹی دھاندلی کرتا ہے بڑا آدمی بڑی دھاندلی کرتا ہے 
اسی طرح اے میرے رب! چھوٹا آد می چھوٹی کرپشن کرتا ہے بڑا آدمی بڑی کرپشن کرتا ہے اے مالکِ دوجہاں! افسوس اِس حمام میں تو سب ننگے ہیں اے مالکِ کائنات مجھے پلیز بتا میں کس سے پوچھوں میں کس سے فریاد کروں کون ہے جو تیرے سوا بتا سکتا ہے اور کون ہے جو تیرے سوا فریاد کو سُن سکتا ہے میں عاجزی سے پوچھتا ہوں کیا ایسا چور جو شیطان کا دوست ہو وہ کبھی اپنے قدموں کے نشان چھوڑے گا یا اپنے چوری کے ثبوت نہیں مٹادے گا افسوس لوگ چوری کرتے ہیں ڈاکہ ڈالتے ہیں لیکن اپنے قدموں کے نشان مٹا دیتے ہیں اپنے خلاف ثبوتوں کو ختم کردیتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس ظاقت ہے اور وہ خریدنے کی طاقت رکھتے ہیں اور ہر چیز خرید سکتے ہیں اے ربِ کریم یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں یہ لوگوں کی عزت نفس خریدتے ہیں، یہ لوگوں سے اُن کی غربت خریدتے ہیں وہ غریب کیا کرے جس کے گھر میں  کھانے کو نہیں ہوگا وہ چند نوالوں کے عوض اِن کے ہاتھوں نہیں بکے گا خالی پیٹ تو کھانے کو مانگتا ہے ہر کوئی تو آزمائش کو نہیں سہہ سکتا۔
اے میرے مالک ہر کوئی تو بھوک برداشت نہیں کرسکتا ہر کوئی تو دُکھ نہیں جھیل سکتا کیا کریں جب بھوک اِن غریبوں کو ستاتی ہے اور اِن کے بچے جب بھوک سے بلکتے ہیں تو اے میرے رب افسوس یہ درندوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں دہشت گردی کا بازار گرم کرتے ہیں، ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں، اغوا برائے تاون کرتے ہیں، بھتہ خوری کا گھناونا جرم کرتے ہیں غرض ہر جرم اپنے پیٹ کی خاطر کرتے ہیں اور حصہ اپنے پیچھے ڈوریاں ہلانے والوں کو پہنچاتے ہیں اور جب پکڑے جاتے ہیں تو خود پھانسیاں چڑھ جاتے ہیں اوراور اپنے پیچھے ڈوریاں ہلانے والوں کو مظبوط سے مظبوط کرتے چلے جاتے ہیں اور ڈوریاں ہلانے والے اِن کو استعمال کرکے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ تم دہشت گرد کیوں بنے، تمہیں ٹارگٹ کلر کس نے بنایا، کس نے تمہیں اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری پر آمادہ کیا کون لوگ تھے تمھارے پیچھے جب تک تم قابل استمعال تھے تمہاری حفاظت کرتا رہا لیکن جیسے ہی تم استعمال کے قابل نہیں رہے انہوں نے تمہیں ٹشو پیپر کی طرح اُٹھا کر پھینک دیا یا تمہیں دُنیا سے اُٹھا دیا گیا ۔
یا تم قانون کے ہاتھوں پکڑے گئے تو قانون نے یہ نہیں پوچھا کہ تم نے قتل کیوں کیا تم دہشت گرد کیوں بن گئے، تم اپنی بہن کی عزت بچاتے ہوئے قاتل بن گئے تم اپنے پیٹ کی بھوک سہتے سہتے خودکش بمبار بن گئے کیونکہ تم نے یہ سوچا کہ میں تو چلو اِس دنیا سے چلا جائوں گا لیکن میرے بعد میرے بھوکے ماں باپ کو اور میرے بھوکے بچوں کو کھانے کے چند لقمے مل جائیں گے قانون نے یہ نہیں پوچھا کہ یہ سب کچھ تم نے کیوں کیا کون لوگ تمہاری ڈوریاں ہلا رہے تھے اے میرے پروردگار میں تجھ سے عاجزی کے ساتھ کہتا ہوں کہ اِس دُنیا کا قانون اندھا ہوتا ہے وہ جرم پر سزا دیتا ہے وہ یہ دیکھتا ہے کہ جرم ہوا ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ جرم کیوں ہوا ہے اے میرے پروردگار! مجھے بتا کہ اگر کسی کی بہن، بیٹی، یا ماں کی عزت لُٹ رہی ہو تو وہ کیا کرے۔ اے میرے رب مجھے بتا کہ اگر کوئی شخص اور اُس کے ماں باپ اور بیوی اور بچے کئی دن سے بھوکے ہوں تو وہ کیا کرے۔ اے میرے مالک! مجھے بتا اگر کسی کو عدالت سے در در دھکے کھانے کے باوجود انصاف نہ ملے تو وہ کیا کرے۔ اے رب مجھ بتا کہ اگر کسی کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری نہ ملے تو وہ کیا کرے انصاف سے بتا ہر شخص اتنی آزمائش برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا وہ دہشت گرد بنتا ہے، ٹارگٹ کلر بنتا ہے، بھتہ خور بنتا ہے، یا اغوا برائے تاوان کا مجرم بنتا ہے اور اس کو اس راہ پر لگانے والے طاقت ور لوگ این ۔آر۔ او کرکے محفوظ رہتے ہیں اور دندناتے پھرتے ہیں۔
اے کائنات کے مالک اِن ریا کاروں، منافقوں، ڈراما بازوں اوردنُیا داروں نے اِس دنُیا کو جہنم بنادیا ہے وہ آنکھیں رکھتے ہیں پر دیکھ نہیں سکتے، وہ زبان رکھتے ہیں لیکن بول نہیں سکتے، وہ کان رکھتے ہیں پرسُن نہیں سکتے گویا کہ وہ اندھے گونگے اور بہرے ہیں۔ اے خدا وہ ظلم ہوتے دیکھتے ہیں لیکن اس کے خلاف اپنی زبان سے آواز بلند نہیں کرتے اور افسوس وہ اپنے کان بند کرلیتے ہیں اے میرے مالک مجھے بتا وہ لوگ جو نیک رہنا چاہتے ہیں اور سچائی کے راستے پر چلتے چلتے تھک سے گئے ہیں اُن کی آنکھیں ایک عرصے سے تیری رحمت کا انتظار کررہی ہیں کیونکہ اے میرے مالک میں نے سُنا ہے کہ نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ صرف بہتر لوگ تھے باقی مسلمان کہاں تھے میں لوگوں سے پوچھتا ہوں تو کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہوتا وہ بس ایک دوسرے پر الزا مات کی بارش کرکے اپنا دامن بچاتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں نوح علیہ السلام نے لوگوں کو سچائی کی طرف بلایا اکثریت کہاں تھی، ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں کو اے مالک تیری راہ کی طرف بلایا اکثریت کہاں تھی، لوط علیہ السلام نے لوگوں کو سچائی کا راستہ دکھایا اکثریت کہاں تھی، صالح علیہ السلام نے لوگوں کو سچے راستے کی طرف بلایا اکثریت کہاں تھی، شعیب علیہ السلام نے لوگوں کو ہدایت کی اکثریت کہاں تھی۔ موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو سیدھا راستہ دکھایا ان کی اکثریت نے ہمیشہ نافرمانی کی، زکریا علیہ السلام کو لوگوں کی اکثریت نے قتل کردیا، عیسیٰعلیہ السلام کو لوگوں کی اکثریت نے مخالفت کی اور ان ہی کی ایک شاگرد نے آپ کو پکڑوا دیا، رسول صلی علیہ والہ وسلم کو کفار کی اکثریت نے سخت اذیتیں دیں، حضرت علی علیہ السلام نے جب انصاف کا علم بلند کیا تو لوگوں کی اکثریت آپ کی مخالف ہوگئی۔
 حضرت امام حسین علیہ السلام کو سب چھوڑ گئے اور لوگوں کی اکثریت نے آپ کو شہید کردیا اور اے پاک پروردگار تُو تو اپنی پاک کتاب قرآن میں خود فرماتا ہے کہ اکثریت گمراہ ہے لیکن افسوس لوگ اکثریت کا راگ الاپتے ہیں، دھاندلی سب کرتے ہیں اور پھر ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرتے ہیں افسوس جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں اور کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ہیں اے میرے رب میں نہیں جانتا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے ہاں میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ تو سب سے بہتر جاننے والا اور باخبر ہے تو اے میرے رب میں تجھ سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کہ ریت کے نیچے جو سچ دفن ہے ایسی ہوا چلا کہ سچ باہر آجائے کیونکہ لوگ اپنے قدموں کے نشانات مٹا دیتے ہیں، ثبوت اپنی طاقت کے بل پر ختم کردیتے ہیں اور لوگ اپنی جان کے خوف سے اندھے، گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں اے میرے رب دیکھ یہ دُنیا ظلم و جور سے بھر گئی ہے بس لوگوں کو ہدایت عطاء فرما اور ان لوگوں پر جو کمزور کردیئے گئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور نازل کر اپنی تلوار کو جو ظالموں کے ظلم کا خاتمہ کرے اور عدل و انصاف کا سورج طلوع ہو مالک تیرے وہ بندے جو تیرے راستے پر چلنا چاہتے ہیں وہ سخت پریشان ہیں مالک اپنے نیک بندوں کی آنکھوں کو قوت عطاء کر تاکہ وہ دیکھ سکیں، ان کی زبان کو قوت عطاء کر تاکہ وہ بول سکیں اور ان کے کانوں کو سماعت کی قوت عطاء کر تاکہ وہ سُن سکیں اے میرے رب جو اندھے ہیں ان کو بینائی عطاء کر، جو گونگے ہیں اُن کو قوت گویائی عطاء کر اور جو بہرے ہیں اُن کو قوت سماعت عطاء کر اور امام قائم حضرت امام مہدی علیہ السلام کو اپنی تلوار عطاء فرما اور اُن کا ظہور فرما تاکہ اس دنیا سے ظلم ختم ہو آمین

العجل العجل العجل یا صاحب الزماں امام مہدی علیہ السلام
اگر کسی کو میری کسی بات  سے کوئی اختلاف ہے تو وہ اختلاف رکھ سکتا ہے کیونکہ اختلاف رائے ہر ایک کا حق ہے اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ میں دوسروں سے اختلاف رکھ سکوں اگر کسی کو میری کسی بات سے دکھ پہنچا ہو تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں کیونکہ یہ میری اپنے نظریات ہیں  شاید کسی کو سمجھ آسکیں۔ 




سید محمد تحسین عابدی



Sunday, 12 July 2015

اے میرے رب

رب سے باتیں 

اے میرے رب میری فریاد سُن کیونکہ تو سب سے بہتر جاننے والا، سُننے والا اور دیکھنے والا ہے، اے مالکِ ارض و سما میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر تجھ سے عاجزی سے عرض کرتا ہوں کی میں نے اُن کانوں سے جو تو نے مجھے عطاء کئے ہیں سُنا اور اُن آنکھوں سے جو تو نے عطاء کی ہیں دیکھا اور اُس علم سے جو تو نے مجھے عطاء کیا ہے جانا کہ لوگوں کو اِس فانی دُنیا کی کشش نے اپنی طرف کھینچا اور وہ شیطان کی دوستی میں اندھے ہوگئے اور اُن کو کثرت کی خواہش نے غفلت میں ڈال دیا اور اِس غلفت کو اُنہوں نے ترقی کا نام دے ڈالا اور اے میرے پاک پروردگار میں اپنے کانوں سے سُنتا ہوں، اپنی کھلی ہوئی آنکھوں سے دیکھتا ہوں ، اور اُس علم سے جو تو نے مجھے عطاء کیا ہے جانتا ہوں کہ لوگ ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں اور قہقے لگاتے ہیں وہ معصوم لوگوں کے گلے کاٹتے ہیں اور افسوس خود کو مسلمان کہتے ہیں، بم سے خود کو پھاڑتے ہیں خود بھی مرتے ہیں اور لوگوں کو بھی مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم سے بہتر انسان کوئی نہیں   
وہ اپنے مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم حق پرست ہیں، فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم سے بڑا مسلمان کوئی نہیں، سیاسی مخالفین  ،سیاسی اور مذہبی کارکنوں پولیس کے ہاتھوں کھلے عام قتل کرواتے ہیں اور مونچھوں پر تائو دیتے ہوئے دندناتے پھرتے ہیں اور ٹی وی ٹاک شوز اور میڈیا میں دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے ہیں،  قانون اُن کے سامنے بے بس نظر آتا ہے، میرے مالک یہ وہی لوگ ہیں جن کو کثرت کی خواہش نے غفلت میں رکھا ہے اور شاید اِن کے لئے دُنیا ہی سب کچھ ہے شاید یہ تیری یہ آیت بھول گئے ہیں کہ تم کو کثرت کی خواہش نے غفلت میں رکھا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں اے میرے رب، اے میرے رب یہ آنکھیں رکھتے ہیں لیکن دیکھتے نہیں ہیں اور ظلم کرتے ہیں، زبان رکھتے ہیں لیکن ظُلم پرچُپ رہتے ہیں کیونکہ قدموں کے نشان اِن کی طرف جاتے ہیں، کان رکھتے ہیں لیکن سُنتے نہیں ہیں کیونکہ اِن کے کان سچ سُننا پسند نہیں ہے شاید یہ اندھے، گونگے اور بہرے ہیں اے میرے پاک پروردگا مجھے صرف اتنا بتا دے کہ وہ لوگ کو نیک رہنا چاہتے ہیں اور تیرے راستے پر چلنا چاہتے ہیں ایسی دُنیا میں کہاں جائیں وہ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں اور بہت کمزور ہیں اے میرے خدا میری فریاد سُن، میری التجا سُن کہ نیک لوگوں کو طاقت عطاء کر اور انہیں قوت دے کہ وہ اپنی نیکی کو قائم رکھ سکیں۔ اے میرے رب دیکھ یہ دُنیا ظلم و جور سے بھر گئی ہے میں ہاتھ جوڑ کرتجھ التجا کرتا ہوں بس اپنی تلوار کو بھیج تاکہ وہ دنیا کے ظالموں کا سر قلم کرے اور دنیا کو عدل سے بھر دے۔
اے میرے پاک پروردگار میں اپنے کانوں سے سُنتا ہوں، اپنی کھلی ہوئی آنکھوں سے دیکھتا ہوں ، اور اُس علم سے جو تو نے مجھے عطاء کیا ہے جانتا ہوں کہ لوگوں کو کثرت کی خواہش نے اس قدر غفلت میں رکھا کہ انہوں نے اِس دنیا کو حاصل کرنے کے لئے رشوت کا وہ بازار گرم کیا کہ کوئی کام رشوت اور کمیشن کے بغیر نہیں ہوتا اے ربِ ذُوالجال یہ ایک تلخ حقیقت اور کڑوی سچائی ہے کہ اس دنیا کے حمام میں سب ننگے نظر آتے ہیں افسوس بڑا آدمی بڑا ہاتھ مار رہا ہے اور چھوٹا ادمی چھوٹا ہاتھ مار رہا ہے کیونکہ ہر کوئی ترقی کرنا چاہتا ہے اِس لئے کوئی قاعدہ کوئی قانون نہیں ہے اے میرے مالک، اے میرے رب میں کس دل سے تجھ سے عرض کروں کہ ہر طرف جنگل کا قانون ہے اگر آپ کی جیب میں پیسہ ہے تو آپ کے لئے ہر کام آسان ہے اور ہر غلط کام صحیح ہے اور اگر آپ کی جیب خالی ہے تو پھر آپ کا ہر جائز اور صحیح کام غلط ہے اے میرے رب، اے میرے رب اُن لوگوں کو جو نیک رہنا چاہتے ہیں اور تیرے راستے پر چلنا چاہتے ہیں بتا وہ کیا کریں کیونکہ وہ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں اور دُنیا میں اکثریت کا قانون چلتا ہے میرے مالک مجھے بتا کیا وہ کسی پہاڑ سے چھلانگ لگادیں، یا زہر کھا کر مر جائیں، یا کسی سمندر میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی ختم کرلیں، یا اپنے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلیں لیکن افسوس وہ نیک لوگ کیا کریں کیونکہ تُو نے خودکشی کو حرام قرار دے رکھا ہے راستباز رشوت اور کمیشن نہیں دینا چاہتے لیکن بے بس اور مجبور ہیں اگر رشوت اور کمیشن نہ دیں تو پھر زندگی اُن کے لئے تلخ ہے اور اُن کا جینا محال ہے اِس دنُیا کی اکثریت نے اُن کے لئے کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے اور اے میرے مالک تُو نے خودکشی کو حرام قرار دے کر اُن کا راستہ بند کر دیا ہے اے میرے پاک پروردگار میں ہاتھ جوڑ کر تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ اُن لوگوں کی آواز پر کان لگا، ان لوگوں کی پُکار کو سُن جو نیک رہنا چاہتے ہیں اور سچائی کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں اے ربِ کریم دیکھ یہ دُنیا ظلم و جور سے بھر گئی ہے اب بس کر نیک لوگ انتظار کرتے کرتے اور صبر کرتے کرتے تھک سے گئے ہیں اب بس کر اور اپنی تلوار کو نازل فرما تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو اور یہ دُنیا عدل سے بھر جائے مالک نیک اورسیدھے راستے پر چلنے والون کی التجا اور فریاد سُن اور اب دیر مت کر کیونکہ اس دُنیا میں نیکی آٹے میں نمک کے برار رہ گئی ہے اور لوگ گناہ ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔ 
اے میرے پاک پروردگار میں اپنے کانوں سے سُنتا ہوں، اپنی کھلی ہوئی آنکھوں سے دیکھتا ہوں ، اور اُس علم سے جو تو نے مجھے عطاء کیا ہے جانتا ہوں کہ لوگوں کو کثرت کی خواہش نے اس قدر غفلت میں رکھا کہ انہوں نے اِس دنیا کو حاصل کرنے کے لئےاے  میرے ربِ عظیم ہر کسی نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے اے عرش کے مالک اے کائنات کے مالک میں انتہائی افسوس اور دُکھی دِل کے ساتھ یہ کڑوی اور تلخ سچائی تیرے حضور پیش کر رہا ہوں جسے تُو مجھ سے بہتر اور اچھی طرح جانتا ہے کاش زمیں پھٹ جائے اور راستباز اور تیرے راستے پر چلنے والے لوگ اُس میں سما جائیں کیونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سُنا اور اپنی کانپتی اور لرزتی ہوئی زبان سے بیان کررہا ہوں کہ کوئی ہے جو بتائے کہ مساجد، مدرسوں، امام بارگاہوں کے چندے کہاں جاتے ہیں زکواۃ اور فطرانہ کے نام پر جو بھتہ اکھٹا ہوتا ہے وہ کن پیٹوں میں اُتر جاتا ہے سرکاری ہسپتالوں میں علاج صحیح کیوں نہیں ہوتا اور پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھاری فیس کیا کوئی غریب آدمی ادا کرسکتا ہے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بڑے وکلا کی بھاری فیسیں کیا کوئی غریب آدمی دینے کا تصور کرسکتا ہے۔ مساجد، امام بارگاہوں اور مدرسوں سے جوتے کون چوری کرلیتا ہے، اور کون ہے جو مساجد، امام بارگاہوں اور مدرسوں سے پانی کی موٹریں غائب کردیتا ہے۔ میرے مالک مجھے بتا امتحانات میں نقل کون کرتا ہے جعلی ڈگریاں کہاں سے ملتی ہیں اور جعلی ڈگری والے اسمبلیوں میں کیسے پہنچ جاتے ہیں ، رمضان جیسے مقدس مہینے کو لوگوں نے کاروبار کا ذریعہ کیوں بنا لیا ہے رمضان میں چیزیں کون مہنگی کرتا ہے، ٹی وی میں  پیش کئے جانے والے رمضان کے پروگرام مذہب سے زیادہ کاروبار کیوں بن گئے ہیں افسوس غریب لوگوں کو اِن پروگراموں میں پیش کرکے اُن کی عزت نفس سے کون کھیلتا ہے، بظاہر انعامات کی بارش کی جاتی ہے اور لوگوں سے اِن پروگراموں میں عجیب و غریب حرکتیں کروائی جاتی ہیں اور لوگوں کی عزت نفس سے کھیلا جاتا ہے افسوس لوگ بھی انعامات کے لالچ میں عجیب و غریب حرکتیں کرنے پر تیار نظر آتے ہیں لیکن افسوس اُن لوگوں پر جو مذہب کے نام پر کاروبار کررہے ہیں اور کہتے ہیں ہم اصلاح کرنے والے ہیں اے ربِ جلیل تیرا اسلام تو یہ کہتا ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے کو خبر نہ ہو لیکن دینے والے بھرپور نمائش کرتے ہیں اور لوگوں کی عزت نفس سے کھیلتے ہیں اے میرے رب افسوس صد افسوس یہ سب کچھ ترقی کے نام پر ہو رہا ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے کو لوٹنے کی کوشش میں مصروف ہے کیونکہ اکثریت کو گاڑی چاہیئے، بنگلہ چاہیئے، اچھا سٹیٹس چاہیئے، الماری کپڑوں سے بھری ہونی چاہیئے اے میرے رب کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ پیسہ کیسے آیا اور جب مذہبی سکالر مذہب کو فروخت کرنا شروع کردیں تو پھر کہنے کے لئے کیا رہ جاتا ہے اے میرے مالک بتا وہ لوگ کہاں جائیں جو نیک رہنا چاہتے ہیں اور تیرے راستے پر چلنا چاہتے ہیں وہ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں اب اُن کے حال پر رحم کر اور اپنی تلوار کو نازل کر تاکہ دُنیا سے ظلم و جور کا خاتمہ ہو اور یہ دنُیا عدل سے بھر جائے۔ کاش کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے کہ تم کو کثرت کی خواہش نے غفلت میں رکھا اور یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔



العجل العجل العجل یا صاحب الزماں امام مہدی علیہ السلام
اگر کسی کو میری کسی بات  سے کوئی اختلاف ہے تو وہ اختلاف رکھ سکتا ہے کیونکہ اختلاف رائے ہر ایک کا حق ہے اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ میں دوسروں سے اختلاف رکھ سکوں اگر کسی کو میری کسی بات سے دکھ پہنچا ہو تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں کیونکہ یہ میری اپنے نظریات ہیں  شاید کسی کو سمجھ آسکیں۔  





سید محمد تحسین عابدی




Thursday, 2 July 2015

رب سے باتیں

رب سے باتیں 

اے میرے رب میرے پاک پروردگار تو اس کائنات کا مالک اور خالق ہے اور کائنات کے ہرذرے اور ہرچیز کو تو نے پیدا کیا ہے ہر جاندار اور بے جان سب تیرے ہی حکم کے تابع ہیں سورج چاند، ستارے، آسمان زمین سب تیرے حکم سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں اور بے شک تیری مرضی کے بغیر کوئی پتا بھی نہیں ہل سکتا لیکن تو نے انسان کو خلق کیا اوراُس کو کو عمل کرنے کا اختیار عقل دے کر بھیجا کہ وہ اچھا عمل کرے یا برا عمل کرے اچھے عمل کی صورت میں اے میرے رب تو نے انسانوں سے جنت کا وعدہ کیا اور برے عمل کی صورت میں تو نے فرمایا جہنم سے ڈرایا کہ برے عمل کرنے والوں کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں ڈالا جائے گا یہی وجہ ہے کہ تو انسانوں کے اچھے اور برے عمل میں دخل نہیں دیتا اور اُن کو عمل کی پوری آزادی تو نے فراہم کی ہے لیکن اے مالکِ کائنات میں جو کہ زمین کا ایک حقیر سا ذرہ ہوں اس عقل کی مدد سے جو تیری عطاء کی ہوئی اتنا ضرور جانتا ہوں کہ تو نے ہم انسانوں کو دُنیا میں تنہا نہیں چھوڑا ان کی ہدایت کے لئے ، رسولوں، پیغمبروں، انبیاء، اماموں، اولیاء، قلندروں، صالحین اور نیک لوگوں کو چُنا اور انہیں تو نے منتخب کیا کہ وہ دُنیا کے بھٹکے ہوئے انسانوں کو سیدھا اور سچائی کا راستہ دکھائیں۔
اے رب عظیم میں جو زمین کا ایک حقیر رینگنے والا کیڑا ہوں تیرے دئیے ہوئے علم کی وجہ سے یہ جانتا ہوں کہ تو نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء علیہ السلام پر صحیفے نازل کئے اور اپنی چار مقدس کتابیں توریت، زبور، انجیل اور قرآن پاک نازل کیں تاکہ انسان اَن کتابوں کے ذریعے ہدایت پائیں اور سیدھے راستے کو اپنائیں تو نے چاہا کہ انسان جس کو اس دُنیا میں آزمائش کے لئے بھیجا ہے وہ تجھ پر، تیرے انبیاء، اماموں پر اور تیری نازل کی ہوئی مقدس کتابوں پر ایمان لائیں اور سیدھا اور ہدایت کا راستہ اپنائیں اور جنت کے حق دار بن جائیں اور تُو نے تو انسانوں پر اتنی زیادہ شفقت اور مہربانی بھی کی کہ اگر انسان کوئی غلطی، گناہ یا کوتاہی کر بیٹھے تو اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں سے توبہ کرلے اور  معافی مانگ لے تو اے ربِ کریم تو اُس گناہ گار انسان کو اپنی رحمت سے معاف فرما دے گا اور یقینا تو رحیم  اور کریم اور بڑا معاف کرنے والا ہے۔  لیکن اے میرے خدا میں جو ایک انتہائی کمزور انسان ہوں نے جب اِس دُنیا میں انسانوں کو دیکھا اور اُن کی تاریخ کی تاریخ کو پڑھا تو میرا پورا وجود لرز گیا کہ انسان نے، اے میرے رب تھجھے اپنا دوست بنانے کے بجائے شیطان کو اپنا دوست بنا لیا (جبکہ تو نے شیطان کو انسان کا کھلا دشمن قرار دیا) اے میرے مالک و خالق جب میں انسان کی حالت دیکھتا ہوں تو مجھے یہ کڑوی سچائی نظر آتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے ہابیل اور قابیل تھے لیکن افسوس کہ قابیل نے اپنے اختیار سے جو اللہ نے اسے دیا تھا ہابیل کو قتل کردیا اور شیطان کو اپنا دوست بنا لیا یہ دُنیا میں انسان کا انسان کو قتل کرنے کا پہلا واقع تھا اور میرے مالک شاید یہ انسان کا پہلا عظیم گناہ تھا جس کی وجہ سے اس زمین پر سب سے پہلے انسان نے ہی انسان کا خون بہایا۔ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور شیطان کی دوستی کو نہ اپناتا تو یہ دنیا جنت کی مانند ہوتی۔ 
 اے مالکِ ارض و سما میں انتہائی عاجزی سے تجھ سے کہتا ہوں کہ تو نے اپنے پاک نبی حضرت نوح علیہ السلام کو دُنیا میں بھیجا کہ تیرے بندے اور تیرے پیدا کئے ہوئے انسان راہ ہدایت پائیں اور نوح تقریباً نو سو سال لوگوں کو تبلیغ کرتے رہے اور اُن کو تیرے راستے کی طرف محبت اور پیار سے بلاتے رہے لیکن افسوس انہوں نے تیرے بھیجے ہوئے پیغام کو رد کردیا اور شیطان سے دوستی کرلی اور نوح پر اور تیرے پیغام ہدایت پر اس سارے عرصہ میں صرف 33 کے قریب لوگ ایمان لائے اور وہ نوح کو ہنسی ٹھٹوں میں اُڑایا اور اُن کا مذاق اُڑاتے رہے تو جب مالک نوح اُن لوگوں سے مایوس ہوگئے تو تیرا عذاب آن پہنچا اور جلتے ہوئے تندور سے پانی ابل پڑا اورساری زمین اور پہاڑ پانی میں ڈوب گئے اور تمام ظالم ہلاک ہوگئے نوح اور ان کے گنتی کے چند ساتھی اُس کشتی میں محفوظ رہے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ اکثریت ظالم تھی اور بہت کم لوگ نیکی کو اپنانے والے تھے۔ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور شیطان کی دوستی کو نہ اپناتا تو یہ دنیا جنت کی مانند ہوتی۔ 
اے کائنات کو پیدا کرنے والے میں تجھ سے عاجزی سے کہتا ہوں میں نے اِس دُنیا کی طرف کان لگائے تو میں نے دیکھا کہ تو نے اپنے پاک نبی  حضرت ابراہیم کو بھیجا تاکہ نمرود جو خدائی کا دعوے دار تھا اور خود کو خدا کہلاتا تھا کو سیدھا اور سچا راستہ دکھائے اورحضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب سب بت پرست اور ظالم اور نمرود کو خدا سمجھنے والے جشن میں گئے ہوئے تھے تو حضرت ابراہیم نے اُن کے سب بتوں کو توڑ دیا اور بڑے بت کی گردن میں کلہاڑا ڈال دیا جب لوگ واپس آئے تو انہوں نے پوچھا کس نے ہمارے بُتوں کا یہ حشر کیا ہے تو انہیں علم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ کام کیا ہے تو نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا تم نے یہ کام کیا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اس بڑے بت سے پوچھ لو یہ بتائے گا نمرود کو کہنا پڑا کہ یہ بُت بول نہیں سکتا تو حضرت ابراہیم نے کہا کہ پھر ایسے بُت کو کیوں پوجتے ہو جو بول بھی نہیں سکتا نمرود کے پاس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بات کا کا کوئی جواب نہ تھا اُس نے آپ کو آگ میں ڈالنے کا حکم دیا لیکن اے پاک پروردگار تُو نے اپنے نبی علیہ السلام کو بچا لیا لیکن افسوس اس معجزے کے باوجود صرف گنتی کے چند لوگ ایمان لائے لیکن لوگوں کی اکثریت گمراہی کے گڑھے میں گری رہی انتہائی قلیل لوگ ایمان لانے والے تھے اللہ نے نمرود پر ایک مچھر کو اُس پر مسلط کردیا جس سے وہ ہلاک ہوا افسوس انسان سوچتا اورسمجھتا۔ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور شیطان کی دوستی کو نہ اپناتا تو یہ دنیا جنت کی مانند ہوتی۔ 
اے مالک کوئی مانے یا نہ مانے تُو ہی ایک اللہ ہے اور سب ہی تیرے محتاج ہیں ہاں جس کو تو چاہے قدرت اور معجزے عطاء کرے میں تجھ سے عاجزی سے کہتا ہوں کہ میں نے کان لگا کر سنا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو فرعون جیسے خدائی کے دعوے دار اور ظالم سے اللہ کی مدد سے رہائی دلائی لیکن افسوس بنی اسرائیل جو تیری لاڈلی قوم تھی اور تو نے ان کو من و سلویٰ جیسی نعمت عطاء کی لیکن افسوس یہ قوم ہمیشہ تیری نافرمانی کرتی رہی اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر توریت کی آیات لینے کے لئے گئے تو ان کی قوم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اس کی پوجا شروع کردی غرض یہ قوم جو ہر نافرمانی کرتی تھی اور اے میرے مالک تو انہیں معاف کرتا رہا لیکن یہ اپنے نبی کی توہین کرتے تھے ان کی اکژیت نافرمان تھی اور شیطان کی دوست اور برائیوں کی طرف مائل تھی جبکہ بہت تھوڑے لوگ تھے جو نیک اور ایماندار تھے۔ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور شیطان کی دوستی کو نہ اپناتا تو یہ دنیا جنت کی مانند ہوتی۔ 
اے زندگی اور موت کے مالک میں عاجزی سے کہتا ہوں کہ میں نے کان لگا کر سُنا قوم عاد اور قوم ثمود قوم شعیب اور قوم لوط نے شیطان دوستی کی اور اس کی راہ کو اپنایا اُن قوموں کی طرف جو انبیاء اور ہیغمبر علیہ السلام بھیجے گئے تھے اُن کو جھٹلایا اور ان کا م مذاق اُڑاتے رہے اور ان کو ہنسی اور ٹھٹھوں میں اُڑاتے رہے اور اُن سے کہتے رہے کہ وہ عذاب جن سے تم ہمیں ڈراتے ہو ہم پر لے آئو انہوں نے ناقہ صالح کو قتل کرڈالا ان سن قوموں کے غرور اور تکبر کی کوئی انتہا نہ تھی افسوس ان ظالموں نے اللہ کے نبیوں اور نیک اور صالح بندوں کو قتل کیا اور اُن کو طرح طرح کی اذیتیں دی تواے مالکِ دو جہاں تیرا غضب ان پر بھڑکا اور تُو نے ان سب قوموں کو عذاب سے دو چار کر دیا اور سب کو ہلاک کردیا یہ تیرے لئے بہت آسان تھا لیکن افسوس انسان اس بات کو نہیں سمجھتا ہے ان سب قوموں کے صرف گنتی کے چند لوگ تھے جو ایمان لائے تھے لیکن افسوس عظیم ترین اکثریت گمراہی اور گناہوں کی دلدل میں دھنسی ہوئی تھی۔ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور شیطان کی دوستی کو نہ اپناتا تو یہ دنیا جنت کی مانند ہوتی۔
اے رحیم، اے کریم میں تجھ سے عاجزئ سے کہتا ہوں کہ میں نے کان لگا کرسُنا کہ تو نے بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی ہدایت کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے اس دُنیا میں بھیجا یہ ایک تیری ایک کھلی ہوئی نشانی اور معجزہ تھا لیکن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کی والدہ پر الزام لگا دیا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تیرے اِذن سے ان گمراہ لوگوں سے کلام کیا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور مجھے نبوت اور کتاب عطاء کی گئی ہے لیکن لوگ اتنی کھلی نشانی کے بعد گمراہی کا شکار رہے حضرت عیسیٰ کو اے ربِ کریم تو نے مُردوں کو زندہ کرنے اور بیماروں کو شفا دینے جیسے معجزات عطاء کئے تھے لیکن اتنی کھلی نشانیاں دیکھنے کے باوجود لوگوں کی گمراہی دُور نہ ہوئی اور آپ کے بارہ شاگردوں میں سے ایک نے آپ علیہ السلام کو پکڑوا دیا اور سب حضرت عیسیٰ کو چھوڑ کر بھاگ نکلے لیکن اے مالک تو نے اپنے نبی کو بچا لیا اور آسمان پر اُٹھا لیا لوگوں نے حضرت عیسیٰ کی جگہ اور کو صلیب دے دی لوگوں کی اکثریت گمراہی کا شکار رہی اور ایمان لانے والے بہت تھوڑے تھے افسوس صد افسوس۔ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور شیطان کی دوستی کو نہ اپناتا تو یہ دنیا جنت کی مانند ہوتی۔ 
اے پاک پروردگار میں تجھ سے عاجزی کے ساتھ کہتا ہوں کہ میں ایک کمزرو اور ناتواں انسان ہوں کہ میں نے کان لگا سُنا کہ اور جانا کہ تو نے انسانوں کی ہدایت کے لئے صحفیے اور چار مقدس آسمانی کتابیں توریت، زبور، انجیل اور قرآن پاک نازل کیں تاکہ تیرے بندے اور لوگ گمراہی کا شکار ہو کر جہنم کی طرف نہ جائیں تو انسانوں پر کتنا شفیق اور مہربان ہے لیکن افسوس انسانوں نے تیری نازل کی ہوئی کتابوں میں اپنے تھوڑے سے فائدے کے لئے بڑی تبدیلیاں کیں اور شیطان سے دوستی کرلی اور اگر تو اپنی آخری کتاب قرآن پاک کی حفاظت کا خود ذمہ نہ لیتا تو شاید یہ انسان جسے تو نے فرمایا ہے کہ وہ خسارے میں ہے مجھے ڈر ہے اُس میں بھی تبدیلی کردیتا لیکن تیرے حفاظت کے ذمہ کی وجہ سے قرآن پاک محفوظ ہے اور انسانوں کے لئے مینارہ نور ہے مالکِ کائنات توریت، زبور اور انجیل میں تبدیلیوں جن قوموں پر یہ کتابیں نازل ہوئیں ان کی بہت بڑی اکثریت نے قبول کرلیا ہے اور اِن قوموں کے بہت ہی کم لوگ ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ اِن کتابوں میں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور شیطان کی دوستی کو نہ اپناتا تو یہ دنیا جنت کی مانند ہوتی۔ 
اے رحمان، اے رحیم، اے کریم میں جو زمین کا ایک ذرہ ہوں اور زمین پر رینگنے والا ایک حقیر کیڑا ہوں یا شاید ننھا سا جگنو ہوں اور بہت ہی کمزور اور ناتواں ہوں میں تجھ سے عاجزی سے کہتا ہوں کہ میں نے کان لگا کر سنا کہ تو نے اس دُنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لئے اپنے سب سے پیارے حبیب اور اور سب سے افضل بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تمام جہانوں کے لئے رحمت العالمین بنا کر بھیجا اور اُن  کھلا معجزہ قرآن پاک کی صورت میں نازل فرمایا اور حکم دیا کہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلائیں تو آپ کی قوم قریش نے آپ کی مخالفت پر کمر کس لی اور آپ کو ہر طرح اذیت دی لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی عطاء فرمائی اور اسلام کا نام بلند ہوا اور کفار کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا لیکن افسوس یہ ایک تلخ اور کڑوی سچائی ہے کہ جب آپ نے آخری حج کیا اور مسلمانوں کے ساتھ واپس غدیروخم کے مقام پر پہنچے یہ ایسا مقام تھا جہاں سے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا ہوکر اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹنا تھا کہ آپ نے اللہ کےحکم سے لوگوں کو منبر بنانے کا حکم دیا اور منبر پر بیٹھ کر ارشاد فرمایا کہ کے اے لوگوں کیا تم
مجھے اپنا مولا اور آقا سمجھتے ہو سب نے کہا جی اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ہمارے مولا اور آقا ہیں اور آپ ہماری جانوں پر اختیار رکھتے ہیں اس پر آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے قریب بلایا اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کیا اور فرمایا آج سے جس کا میں مولا ہوں یہ علی علیہ السلام اُس کا مولا ہے سب مسلمانوں نے اس پر حضرت علی علیہ السلام کو مبارک باد دی اور کہا آج سے آپ بھی ہمارے مولا اور آقا ہوگئے ہیں اس موقع پر سب مسلمانوں نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا مولا
 اور آقا تسلیم کیا اور اس کے بعد مسلمان اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ گئے لیکن افسوس اللہ کے رسول نے غدیر و خم کے مقام پر اللہ کے حکم سے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا جو اعلان کیا تھا اسے مسلمان بالکل بھول گئے اور مسلمانوں کی اکثریت جس نے حضرت علی علیہ السلام کو رسول کے سامنے اپنا مولا اور آقا مانا تھا بھول گئے اور اپنا انسان چن لیا اللہ   کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور اکثریت صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تو اے میرے وجود کے مالک میں یقین سے کہتا ہوں کہ 61 ہجری میں کربلا کا واقع کبھی بھی پیش نہ آتا میرے مالک میں انتہائی تلخ اور کڑوی سچائی تیرے سامنے پیش کرنے کی جرات کر رہا ہوں کیونکہ تو ہر چیز سے بہتر جانتا ہے اور تویقیناً سب سے بہتر علم رکھنے والا ہے تو میں ایک سوال کرتا ہوں اور اپنا مقدمہ تیرے حضور پیش کرتا ہوں کہ جب کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے بہتر قلیل ساتھیوں کو 
 یزید کے ایک بہت بڑے لشکر نے گھیر لیا تو وہ لشکر کے لوگ کیسے مسلمان تھے کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ رسول کے وہ پیارے نواسے ہیں جن کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کندھوں پر بٹھاتے تھے اور جن کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثیں تھیں کی حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام دنیا میں میرے دو پھول ہیں یا حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں لیکن پھر بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنا چاہتے تھے میں تو اے ربِ ذوالجلال تجھ کو پکارتا ہوں اور پوچھتا ہوں کے اس وقت عرب، ایران، مصر، شام اور ھندوستان کے ساحل تک اور افریقہ تک مسلمان بستے تھے وہ  اور بہت سے مسلمان ایسے تھے جنھوں نے رسول کا زمانہ بھی دیکھا تھا وہ سب کیوں خاموش رہے اور انہوں نے حضرت امام حسین کی مدد کیوں نہ کی اے مالک دو جہاں میرے ذہن اور عقل کو یہ سوال بار بار ڈستا ہے کہ صرف بہتر بہترین انسان امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے باقی مسلمانوں کی اکثریت کہاں تھی
 کیا مسلمانوں کو نہیں علم تھا کہ یہ رسول صلی علیہ وآلہ وسلم کے پیارے نواسے ہیں ہمیں ان کے دامن کو نہیں چھوڑنا چاہیئے لیکن افسوس اپنے جیسے لوگوں کو چُننے والے لوگ ہمیشہ نیک لوگوں کو مشکل وقت میں، اے میرے مالک کیوں چھوڑ جاتے ہیں افسوس صد افسوس اے میرے مالک کیا کسی انسان کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ لوگوں کی اکثریت حضرت امام حسین علیہ السلام کا ساتھ کیوں چھوڑ گئی کیا وہ اکثریت خود کو مسلمان نہیں کہتی تھی کسی کے پاس اس بات کا اے میرے مالک جواب نہیں ہے ہاں اے میرے مالک لیکن تُو ضرور اس بات کا جواب جانتا ہے اے میرے پاک پروردگا میں تجھ سے عاجزی سے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر  پوچھتا ہوں کہ جب اکثریت، چور، بے ایمان، منافق، ڈاکو اور ظالم بن جائے تو اے میرے مالک پھر نیک، متقی، پرہیزگار اور تیرے چُنے ہونے بندے جو اِس دنیا میں ایمانداری سے رہنا چاہتے ہیں وہ کہاں جائیں کیا وہ کیا کریں جب ظلم بڑھتے بڑھتے اتنا بڑھ جائے کہ ظالم ظُلم کرتے کرتے نہ تھکے اور مظلوم کی آواز اتنی کمزور ہوجائے تو وہ ان کے پاس تیرے سوا کوئی چارا نہیں اے میرے مالک میں دیکھتا ہوں کہ گناہ بڑھتے جاتے ہیں اور نیک لوگوں کا مذاق اُڑیا جاتا ہے جس کا باپ رشوت نہیں لیتا اس کی اولاد اسے پاگل سمجھتی ہے ہر شخص دُنیا کی کشش کی طرف تیزی سے بھاگ رہا ہے لوگ ایک دوسرے کو ذرا ذرا سی بات پر قتل کر دیتے ہیں۔ اے مالک اے میرے رب کوئی کام رشوت، سفارش، اور کمیشن کے بغیر نہیں ہوتا جو گناہ نہیں کرنا چاہتا وہ بھی گناہ پر مجبور کردیا گیا ہے نیکی تو ایسی ہی ہے جیسے آٹے میں نمک ہر شخص نے جھوٹ پر کمر باندھ رکھی ہے ہر طرف اے معبود نفرت کا بازار گرم ہے لوگ ایک دوسرے سے صرف نفرت کرکے جیتے ہیں مسلمان، عیسائی، یہودی، ہندو بدھ مت، سکھ اور تجھ کو نہ ماننے والے سب ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں کہیں شیعہ، سنی ، دیوبندی، بریلوی نفرت کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں تو کہیں، پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچی، مہاجر نفرتوں کی آگ میں جل رہے ہیں
اے میرے معبود میں تجھ سے عاجزی سے فریاد کرتا ہوں کے کیا ابھی یہ دنیا ظُلم و جور سے نہیں بھری ہر طرف ظلم کا بازار گرم ہے اے پاک پروردگار تیرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ جب یہ دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی تو اس دنیا میں حضرت امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے اور وہ اس دنیا میں عدل قائم کریں گے تو اے میرے مالک تیرے پیارے رسول کی حدیث غلط نہیں ہوسکتی تو اے رب عظیم میں تجھ سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کہ اس دنیا میں وہ لوگ جو نیکی کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں سخت ترین مشکل اور مصیبت میں ہیں اے میرے رب میری التجا سُن اور تمام نیک لوگوں کی التجا سن یہ دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہے اب اپنی رحمت نازل فرما اور امام مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھیج دے اور امام مہدی کا ظہور فرما دے ہم لوگ تھک گئے ہیں انتظار کرتے کرتے ہم ٹوٹتے چلے جارہے ہیں تجھے اپنے تمام انبیاء، اپنے تمام اماموں، اولیا، اور تمام نیک لوگوں کا واسطہ اب بس اپنی رحمت نازل کر اور ظہور فرما دے مالک ہمارے آنسوئوں کو اور ہماری فریاد کو سُن ہم سے ناراض مت ہو ہم بہت کمزور کردئیے گئے ہیں اور ہم کیا کریں کدھر جائیں ہمارا تیرے سوا کوئی سہارا نہیں ہے اے میرے مالک دیکھ یہ دنیا گمراہی کے گڑھے میں دھنستی چلی جارہی ہے اس کو اے مالک نکال سکتا ہے اور لوگوں کو ہدایت عطاء کرسکتا ہے۔

العجل العجل العجل یا صاحب الزماں امام مہدی علیہ السلام
اگر کسی کو میری کسی بات  سے کوئی اختلاف ہے تو وہ اختلاف رکھ سکتا ہے کیونکہ اختلاف رائے ہر ایک کا حق ہے اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ میں دوسروں سے اختلاف رکھ سکوں اگر کسی کو میری کسی بات سے دکھ پہنچا ہو تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں کیونکہ یہ میری اپنے نظریات ہیں  شاید کسی کو سمجھ آسکیں۔  





سید محمد تحسین عابدی